Breaking

Hot News

Wednesday 3 July 2019


شیر کی ایک دن کی زندگی
گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے
عبدالعزیز
شہید ٹیپو سلطان ایک روشن ستارہ کی مانند ہیں جن کی مجاہدانہ زندگی سے ہم سب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آج بھی ان کی حیات و کارنامے پڑھنے سے حوصلہ ملتا ہے۔ ایک بہادر اور شجاعت مند کی زندگی کیسی ہوتی ہے اس کا ایک اچھا نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے۔
ٹیپو سلطان (10 نومبر 1750ء - 4 مئی 1799ء) ہندستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھااور کئی بار انگریزی افواج کو شکست فاش دی۔
شہید ٹیپو سلطان کا قول تھا:”شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“۔
شیر میسور نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔
ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کا میاب نہ ہوسکے۔ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگاپٹنم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا۔ غدار ساتھیوں نے دشمن کیلئے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی، اس موقع پر فرانسیسی افسرنے ٹیپو کوبھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 1799ء میں دوران جنگ سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گئے۔
اندازِ حکمرانی:ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی۔ مذہبی تعصب سے پاک تھے، یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو ’مملکت خداداد‘ کا نام دیا۔حکمران ہونے کے باوجود خود کوعام آدمی سمجھتے۔باوضو رہنا اور تلاوتِ قرآن مجید آپ کے معمولات میں سے تھے۔ ظاہری نمود و نمائش سے اجتناب برتتے۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔
علم دوست حکمران:ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
عظیم سپہ سالار:ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظم کیا۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔
میسور کی چوتھی جنگ: میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹنم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدار میر صادق اور پورنیا نے اندرونِ خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹنم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گیا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگا پٹنم کے قلعے کے دروازے پر جام شہادت نوش فرمایا۔
علامہ اقبالؒ کی نظر میں:شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی۔ 1929ء میں آپ نے شہید ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا: ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ وہ مذہب و ملّت اور آزادی کیلئے آخری دم تک لڑتا رہا، یہاں تک کہ اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا۔
علامہ اقبالؒ نے ’ضرب کلیم‘ میں ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم سے شہید ٹیپو سلطان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے:
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہئ حق و باطل نہ کر قبول
سیمابؔ اکبرآبادی نے بھی ایک نظم ٹیپو سلطان کی تعریف میں لکھی ہے: اے شہید مردِ میدان وفا تجھ پر سلام تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا
آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھو دیا بت پرستوں پر کیا ثابت یہ تونے جنگ میں مسلم ہندی قیامت ہے حجازی رنگ میں  عین بیداری ہے یہ خواب گراں تیرے لیے ہے شہادت اک حیات جاوداں تیرے لیے تو بدستور اب بھی زندہ ہے حجاب کور میں
جذب ہو کر رہ گیا ہستی پر شور میں

No comments:

Post a Comment